site logo
ALL ONLINE MOVIESHomeBlogAbout Me
Welcome to HAFIZ UMAR WAP™
Hafiz umar shad wapHi friends, welcome in here pkwapnet.wap.sh
TIME&DATE
Current time:[GMT +5:45]
Translate this site all language
translator any language enter your text
my guestbook
my chatroom
my site forum
my simple blog
about me
site chat
نااہل بادشاہ




دریا کے اس پار جنگل کے تمام جانوروں نے جنگل کے بادشاہ شیر کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدیوں پر محیط فرسودہ اور آمرانہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ہر بار شیر ہی جنگل کا بادشاہ کیوں بنے، دوسرے جانوروں کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے، شہروں میں جمہوری طرز حکومت بڑی کامیابی سے چل رہا ہے، اب جنگل میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، الیکشن ہوں اور جو جانور جیتے اسے بادشاہت کا تاج ملے، اس مطالبے میں لومڑی، ریچھ اور ہاتھی پیش پیش تھے، شیر نے جانوروں کے تیور دیکھتے ہوئے بادشاہت چھوڑدی اور گوشہ نشین ہوگیا، تمام جانور بے حد خوش تھے، الیکشن کا اعلان کردیا گیا، بادشاہت کے امیدواروں میں ہاتھی، چیتا، ریچھ، لومڑی اور بندر شامل تھے، الیکشن ہوئے ووٹ ڈالے گئے، اتفاق سے جنگل میں بندروں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، ا نہوں نے اپنے ساتھی بندر کو ووٹ ڈیے، درختوں پر رہنے والیے کچھ پرندوں نے بھی اپنا ووٹ بندر کو دیا، اس طرح بندر واضح اکثریت سے کامیاب قرار پایا اور بادشاہت کا تاج اس کے سر پر سج گیا۔
کچھ دن تو آرام سے گزرے، پھر جنگل کا سکون خراب ہوناشروع ہوگیا، شیر کا اپنا ایک رعب ہوتا تھا، تمام جانور س کی ایک دھاڑ سے سہم جاتے تھے، جب کہ بندر بادشاہ ہر وقت درختوںپر اچھلتا رہتا، یا پھر اپنے ساتھی بندروں کی جوئیں نکال نکال کر کھاتا رہتا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام جانور بے لگام ہوگئے، سب اپنی من مانی کرنے لگے، بڑے جانوروں نے چھوٹے اور معصوم جانوروں کو ستانا شروع کردیا۔ کبھی شکایت آتی کہ کوئی بڑا جانور چھوٹے جانور کے بچوں کو کھاگیا ہے کبھی پتا چلتا کہ کسی پرندے کے انڈے غائب ہیں مگر بندر بادشاہ اپنے حال میں مست تھے، ایک دن بی گلہری، بادشاہ بندر کے پاس واویلہ کرتی ہوئی پہنچی اور بولی ”بادشاہ سلامت! بھیڑیا آج زبردستی میرے گھر میں گھس آیا ہے اور میرے بچوں کو اٹھا کر لے گیا ہے، ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا ہوگا، آپ میری مدد کریں اور میرے معصوم بچوں کو بھیڑیے کے چنگل سے آزاد کرائیں، ورنہ وہ میرے بچوں کو چیر پھاڑ کر کھا جائے گا، بندر بادشاہ نے کہا اچھا میں کچھ کرتا ہوں، اس کے بعد انہوں نے ایک درخت پر چھلانگ لگائی، وہاں سے دوسرے، پھر تیسرے اور پھر بھاگتے ہوئے بی گلہری کے پاس آئے اور پھر ایک درخت پر چڑھ گئے، وہاں سے دوسرے، پھر تیسرے درخت پر چھلانگتیں لگاتے چلے گئے، اتنے میں بی گلہری نے دیکھا کہ بھیڑیا اس کے بچوںکو کھاچکا تھا، اونچے درختوں سے بندر بادشاہ بھی یہ منظر دیکھ کر بی گلہری کے پاس آئے اور غمگین صورت بنا کر بولے ”میں نے بھاگ دوڑ تو بہت کی لیکن اللہ کی یہی مرضی تھی“ بی گلہری روتی دھوتی بندر کو بددعا دیتی چلی گئی اور بندر بادشاہ پھر سے اپنی اچھل کود میں مصروف ہوگئے۔
جنگل کے تمام جانور اس نااہل بادشاہ سے تنگ آچکے تھے، وہ شرمندہ چہروں کے ساتھ شیر کی کچھار میں داخل ہوئے اور درخواست کی کہ شیر دوبارہ سے بادشاہت سنبھالے اور جانوروں کو نااہل اور نامعقول بادشاہ سے نجات دلائے۔ شیر نے انہیں یاد دلایا کہ جمہوری اصولوں کے مطابق پانچ سال سے پہلے بندر کو بادشاہت سے نہیںہٹایا جاسکتا، ہاں اگر اس دوران بادشاہ مرجائے تو پھر متفقہ فیصلے سے دوسرے بادشاہ کا اعلان کیا جاسکتا ہے، یہ سن کر تمام جانور پریشان ہوگئے اور سوچ بچار کرنے لگے کہ اس بادشاہ سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔
میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے، جس کی بدولت ہم اس بندر بادشاہ سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ چالاک لومڑی نے پرجوش لہجے میں کہا۔ بھلا کیا، تمام جانوروں نے بیک زبان پوچھا، لومڑی نے کہا، جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ بندروں کی ایک عادت ہوتی ہے کہ انہیں خاص طور پر متوجہ کرکے کوئی حرکت کی جائے تو وہ اس کی نقالی کرتے ہیں اور جیسا کرتے جاﺅ ویسا ہی کرتے ہیں، اب ترکیب یہ ہے کہ کوئی جانور بندر بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اسے نقالی کرنے پر مجبور کردے اور عجیب و غریب حرکت کرتا ہوا اسے جنگل کے کنارے بنے پرانے کنویں پر لے جائے، اس کے بعد وہ جانور اس کنویں میں چھلانگ لگادے، بندر بادشاہ بھی اسی جانور کی نقل کرتے ہوئے اس گہرے کنویں میں چھلانگ لگادیں گے، اس طرح ہم سب کو اس نااہل بادشاہ سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔
تمام جانور لومڑی کو داد دینے لگے کہ بہت عمدہ ترکیب ہے مگر اصلہ مسئلہ یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، یعنی کون جانور بندر بادشاہ کو متوجہ کرے اسے نقالی پر مجبور کرے اور پھر کنویں میں چھلانگ لگائے کیوں کہ کنویں میں چھلانگ لگانے کے بعد تو کسی کا بھی زندہ بچنا محال ہے، یہ ذمہ داری مینڈک نے اپنے ذمے لے لی، اس نے کہا کہ میں خشکی اور پانی دونوں جگہوں پر رہ سکتا ہوں، میں کوشش کروں گا کہ بعد میں کنویں سے نکل سکوں، اگر نہ بھی نکل سکا تو باقی زندگی کنویں میں ہی گزاردوں گا۔
منصوبہ مکمل تھا، فوراً ہی اس پر عمل کیا گیا۔ تمام جانور درختوں کے پیچھے چھپ گئے اور مینڈک بندر بادشاہ کے سامنے آکر انہیں متوجہ کرنے کے لیے ٹرانے لگا، ساتھ ساتھ وہ اچھل بھی رہا تھا، بندر نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی اچھلنے لگا اور ٹرانے کی کوشش کرنے لگا، مینڈک کبھی آگے کو اچھلتا، کبھی پیچھے کو قلابازی کھاتا اور مسلسل ٹراتا ہوا آہستہ آہستہ کنویں کی طرف بڑھنے لگا، نقالی بندر اس کی نقل کرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھا، کنویں کے نزدیک پہنچ کر مینڈک نے ایک لمبی جست لگائی اور ٹراتا ہوا کنویں کے اندر چلا گیا، بندر نے بنا سوچے سمجھے چھلانگ لگادی اور چھپاک سے سیدھا پانی کے اندر جاگرا، تمام جانور درختوں کے پیچھے سے نکل کر کنویں کے گرد جمع ہوگئے اور بندر بادشاہ کو ڈوبتا ہوا دیکھنے لگے، اچانک اندر سے کوئی چیز اڑتی ہوئی نکلی اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئی، یہ مینڈک تھا، تمام جانور اسے باہر دیکھ کو خوش ہوگئے، مینڈک نے بتایا کہ اس نے چھلانگ لگاتے ہی اندر کی طرف کناروں پر بنے سوراخ دیکھ لیے تھے اس لیے وہ سیدھا ایک سوراخ میں جا کر بیٹھ گیا، تمام جانور خوشی خوشی اپنے ٹھکانوں پر واپس آگئے۔ بندر اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا، شیر کو پھر سے جنگل کا بادشاہ بنادیا گیا اور تمام جانوروں نے عہد کیا کہ آئندہ کسی نااہل کو کبھی بادشاہ نہیںبنایا جائے گا، اب دریا کے اس پار جنگل میں امن و سکون تھا اور تمام جانور ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔



pacman, rainbows, and roller s